数据集:
makhzan
语言:
ur计算机处理:
monolingual大小:
1K<n<10K语言创建人:
expert-generated批注创建人:
expert-generated源数据集:
original许可:
other一份用于机器学习、自然语言处理和语言分析的乌尔都语文本语料库。
[需要更多信息]
乌尔都语
{ "contains-non-urdu-languages": "No", "document_body": " <body> <section> <p>بنگلہ دیش کی عدالتِ عالیہ نے طلاق کے ایک مقدمے کا فیصلہ کرتے ہوئے علما کے فتووں کو غیر قانونی قرار دیا ہے۔ عدالت نے پارلیمنٹ سے یہ درخواست کی ہے کہ وہ جلد ایسا قانون وضع کرے کہ جس کے بعد فتویٰ بازی قابلِ دست اندازیِ پولیس جرم بن جائے۔ بنگلہ دیش کے علما نے اس فیصلے پر بھر پور ردِ عمل ظاہرکرتے ہوئے اس کے خلاف ملک گیر تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے۔ اس ضمن میں علما کی ایک تنظیم ”اسلامک یونٹی الائنس“ نے متعلقہ ججوں کو مرتد یعنی دین سے منحرف اور دائرۂ اسلام سے خارج قرار دیا ہے۔</p> <p>فتوے کا لفظ دو موقعوں پر استعمال ہوتا ہے۔ ایک اس موقع پر جب کوئی صاحبِ علم شریعت کے کسی مئلے کے بارے میں اپنی رائے پیش کرتا ہے۔ دوسرے اس موقع پر جب کوئی عالمِ دین کسی خاص واقعے کے حوالے سے اپنا قانونی فیصلہ صادر کرتا ہے۔ ایک عرصے سے ہمارے علما کے ہاں اس دوسرے موقعِ استعمال کا غلبہ ہو گیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اس لفظ کا رائے یا نقطۂ نظر کے مفہوم میں استعمال کم و بیش متروک ہو گیا ہے۔ چنانچہ اب فتوے کا مطلب ہی علما کی طرف سے کسی خاص مألے یا واقعے کے بارے میں حتمی فیصلے کا صدور سمجھا جاتا ہے۔ علما اسی حیثیت سے فتویٰ دیتے ہیں اور عوام الناس اسی اعتبار سے اسے قبول کرتے ہیں۔ اس صورتِ حال میں ہمارے نزدیک، چند مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ ہم مذکورہ فیصلے کے بارے میں اپنا تاثر بیان کریں، یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مختصر طور پر ان مسائل کا جائزہ لے لیا جائے۔</p> <p>پہلا مألہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ قانون سازی اور شرعی فیصلوں کا اختیار ایسے لوگوں کے ہاتھ میں آجاتا ہے جو قانون کی رو سے اس کے مجاز ہی نہیں ہوتے۔ کسی میاں بیوی کے مابین طلاق کے مألے میں کیا طلاق واقع ہوئی ہے یا نہیں ہوئی؟ ان کا نکاح قائم ہے یا باطل ہو گیا ہے؟ رمضان یا عید کا چاند نظر آیا ہے یا نہیں آیا؟کوئی مسلمان اپنے کسی قول یا اقدام کی وجہ سے کہیں دائرۂ اسلام سے خارج اورنتیجۃً مسلم شہریت کے قانونی حقوق سے محروم تو نہیں ہو گیا؟ یہ اور اس نوعیت کے بہت سے دوسرے معاملات سر تا سر قانون اور عدالت سے متعلق ہوتے ہیں۔ علما کی فتویٰ سازی کے نتیجے میںیہ امور گویا حکومت اورعدلیہ کے ہاتھ سے نکل کر غیر متعلق افراد کے ہاتھوں میں آجاتے ہیں۔</p> <p>دوسرا مألہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ قانون کی حاکمیت کا تصور مجروح ہوتا ہے اور لوگوں میں قانون سے روگردانی کے رجحانات کو تقویت ملتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قانون اپنی روح میں نفاذ کا متقاضی ہوتا ہے۔ اگر اسے نفاذ سے محروم رکھا جائے تو اس کی حیثیت محض رائے اور نقطۂ نظر کی سی ہوتی ہے۔ غیر مجاز فرد سے صادر ہونے والا فتویٰ یا قانون حکومت کی قوتِ نافذہ سے محروم ہوتا ہے۔ اس کی خلاف ورزی پر کسی قسم کی سزا کا خوف نہیں ہوتا۔ چنانچہ فتویٰ اگر مخاطب کی پسند کے مطابق نہ ہو تو اکثر وہ اسے ماننے سے انکار کر دیتا ہے۔ اس طرح وہ فتویٰ یا قانون بے توقیر ہوتا ہے۔ ایسے ماحول میں رہنے والے شہریوں میں قانون ناپسندی کا رجحان فروغ پاتا ہے اور جیسے ہی انھیں موقع ملتا ہے وہ بے دریغ قانون کی خلاف ورزی کر ڈالتے ہیں۔</p> <p>تیسرامسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگرغیر مجاز افراد سے صادر ہونے والے فیصلوں کو نافذ کرنے کی کوشش کی جائے تو ملک میں بد نظمی اور انارکی کا شدید اندیشہ پیدا ہو جاتا ہے۔ جب غیر مجازافراد سے صادر ہونے والے قانونی فیصلوں کو حکومتی سرپرستی کے بغیر نافذ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو اپنے عمل سے یہ اس بات کا اعلان ہوتا ہے کہ مرجعِ قانون و اقتدارتبدیل ہو چکا ہے۔ جب کوئی عالمِ دین مثال کے طور پر، یہ فتویٰ صادر کرتا ہے کہ سینما گھروں اور ٹی وی اسٹیشنوں کو مسمار کرنامسلمانوں کی ذمہ داری ہے، یا کسی خاص قوم کے خلاف جہاد فرض ہو چکا ہے، یا فلاں کی دی گئی طلاق واقع ہو گئی ہے اور فلاں کی نہیں ہوئی، یا فلاں شخص یا گروہ اپنا اسلامی تشخص کھو بیٹھا ہے تو وہ درحقیقت قانونی فیصلہ جاری کر رہا ہوتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں، وہ ریاست کے اندر اپنی ایک الگ ریاست بنانے کا اعلان کر رہا ہوتا ہے۔ اس کا نتیجہ سوائے انتشار اور انارکی کے اور کچھ نہیں نکلتا۔ یہی وجہ ہے کہ جن علاقوں میں حکومت کی گرفت کمزور ہوتی ہے وہاں اس طرح کے فیصلوں کا نفاذ بھی ہو جاتا ہے اور حکومت منہ دیکھتی رہتی ہے۔</p> <p>چوتھا مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ مختلف مذہبی مسالک کی وجہ سے ایک ہی معاملے میں مختلف اور متضاد فتوے منظرِ عام پر آتے ہیں۔ یہ تو ہمارے روز مرہ کی بات ہے کہ ایک ہی گروہ کو بعض علماے دین کافر قرار دیتے ہیں اور بعض مسلمان سمجھتے ہیں۔ کسی شخص کے منہ سے اگر ایک موقع پر طلاق کے الفاظ تین بار نکلتے ہیں تو بعض علما اس پر ایک طلاق کا حکم لگا کر رجوع کا حق باقی رکھتے ہیں اور بعض تین قرار دے کررجوع کو باطل قرار دیتے ہیں۔ یہ صورتِ حال ایک عام آدمی کے لیے نہایت دشواریاں پیدا کر دیتی ہے۔</p> <p>پانچواں مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکمران اگر دین و شریعت سے کچھ خاص دلچسپی نہ رکھتے ہوں تو وہ اس صورتِ حال میں شریعت کی روشنی میں قانون سازی کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔ کام چل رہا ہے کے اصول پر وہ اس طریقِ قانون سازی سے سمجھوتاکیے رہتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ حکومتی ادارے ضروری قانون سازی کے بارے میں بے پروائی کا رویہ اختیار کرتے ہیں اور قوانین اپنے فطری ارتقا سے محروم رہتے ہیں۔</p> <p>چھٹا مألہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ رائج الوقت قانون اور عدالتوں کی توہین کے امکانات پیدا ہو جاتے ہیں۔ جب کسی مسئلے میں عدالتیں اپنا فیصلہ سنائیں اور علما اسے باطل قرار دیتے ہوئے اس کے برعکس اپنا فیصلہ صادر کریں تو اس سے عدالتوں کا وقار مجروح ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کوئی شہری عدلیہ کو چیلنج کرنے کے لیے کھڑا ہو گیا ہے۔</p> <p>ان مسائل کے تناظر میں بنگلہ دیش کی عدالتِ عالیہ کا فیصلہ ہمارے نزدیک، امت کی تاریخ میں ایک عظیم فیصلہ ہے۔ جناب جاوید احمد صاحب غامدی نے اسے بجا طور پر صدی کا بہترین فیصلہ قرار دیا ہے۔ بنگلہ دیش کی عدالت اگر علما کے فتووں اور قانونی فیصلوں پر پابندی لگانے کے بجائے، ان کے اظہارِ رائے پر پابندی عائدکرتی تو ہم اسے صدی کا بدترین فیصلہ قرار دیتے اور انھی صفحات میں بے خوفِ لومۃ و لائم اس پر نقد کر رہے ہوتے۔</p> <p>موجودہ زمانے میں امتِ مسلمہ کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ اس کے علما اپنی اصل ذمہ داری کو ادا کرنے کے بجائے ان ذمہ داریوں کو ادا کرنے پر مصر ہیں جن کے نہ وہ مکلف ہیں اور نہ اہل ہیں۔ قرآن و سنت کی رو سے علما کی اصل ذمہ داری دعوت و تبلیغ، انذار و تبشیر اور تعلیم و تحقیق ہے۔ ان کا کام سیاست نہیں، بلکہ سیاست دانوں کو دین کی رہنمائی سے آگاہی ہے؛ ان کا کام حکومت نہیں، بلکہ حکمرانوں کی اصلاح کی کوشش ہے؛ ان کا کام جہاد و قتال نہیں، بلکہ جہادکی تعلیم اور جذبۂ جہاد کی بیداری ہے؛ اسی طرح ان کا کام قانون سازی اور فتویٰ بازی نہیں بلکہ تحقیق و اجتہاد ہے۔ گویا انھیں قرآنِ مجیدکامفہوم سمجھنے، سنتِ ثابتہ کا مدعا متعین کرنے اور قولِ پیغمبر کا منشامعلوم کرنے کے لیے تحقیق کرنی ہے اور جن امور میں قرآن و سنت خاموش ہیں ان میں اپنی عقل و بصیرت سے اجتہادی آراقائم کرنی ہیں۔ ان کی کسی تحقیق یا اجتہاد کو جب عدلیہ یا پارلیمنٹ قبول کرے گی تو وہ قانون قرار پائے گا۔ اس سے پہلے اس کی حیثیت محض ایک رائے کی ہوگی۔ اس لیے اسے اسی حیثیت سے پیش کیا جائے گا۔</p> <p>اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی حکم نہیں لگایا جائے گا، کوئی فیصلہ نہیں سنایا جائے گا، کوئی فتویٰ نہیں دیا جائے گا، بلکہ طالبِ علمانہ لب و لہجے میں محض علم و استدلال کی بنا پر اپنا نقطۂ نظر پیش کیا جائے گا۔ یہ نہیں کہا جائے گا کہ فلاں شخص کافر ہے، بلکہ اس کی اگر ضرورت پیش آئے تو یہ کہا جائے گا کہ فلاں شخص کا فلاں عقیدہ کفر ہے۔ یہ نہیں کہا جائے گا کہ فلاں آدمی دائرۂ اسلام سے خارج ہو گیا ہے، بلکہ یہ کہا جائے گا کہ فلاں آدمی کا فلاں نقطۂ نظر اسلام کے دائرے میں نہیں آتا۔ یہ نہیں کہا جائے گا فلاں آدمی مشرک ہے، بلکہ یہ کہا جائے گا فلاں نظریہ یا فلاں طرزِ عمل شرک ہے۔ یہ نہیں کہا جائے گا کہ زید کی طرف سے دی گئی ایک وقت کی تین طلاقیں واقع ہو گئی ہیں، بلکہ یہ کہا جائے گا کہ ایک وقت کی تین طلاقیں واقع ہو نی چاہییں۔</p> <p>حکم لگانا، فیصلہ سنانا، قانون وضع کرنا اورفتویٰ جاری کرنا درحقیقت، عدلیہ اور حکومت کا کام ہے کسی عالمِ دین یا کسی اور غیر مجاز فرد کی طرف سے اس کام کو انجام دینے کی کوشش سراسر تجاوز ہے۔ خلافتِ راشدہ کے زمانے میں اس اصول کو ہمیشہ ملحوظ رکھا گیا۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اپنی کتاب ”ازالتہ الخفا ء“ میں لکھتے ہیں:</p> <blockquote> <p>”اس زمانے تک وعظ اور فتویٰ خلیفہ کی رائے پر موقوف تھا۔ خلیفہ کے حکم کے بغیر نہ وعظ کہتے تھے اور نہ فتویٰ دیتے تھے۔ بعد میں خلیفہ کے حکم کے بغیر وعظ کہنے اور فتویٰ دینے لگے اور فتویٰ کے معاملے میں جماعت (مجلسِ شوریٰ) کے مشورہ کی جو صورت پہلے تھی وہ باقی نہ رہی——- (اس زمانے میں) جب کوئی اختلافی صورت نمودار ہوتی، خلیفہ کے سامنے معاملہ پیش کرتے، خلیفہ اہلِ علم و تقویٰ سے مشورہ کرنے کے بعد ایک رائے قائم کرتا اور وہی سب لوگوں کی رائے بن جاتی۔ حضرت عثمان کی شہادت کے بعد ہر عالم بطورِ خود فتویٰ دینے لگا اور اس طرح مسلمانوں میں اختلاف برپا ہوا۔“ (بحوالہ ”اسلامی ریاست میں فقہی اختلافات کا حل“، مولاناامین احسن اصلاحی، ص۳۲)</p> </blockquote> </section> </body> ", "file_id": "0001.xml", "metadata": " <meta> <title>بنگلہ دیش کی عدالت کا تاریخی فیصلہ</title> <author> <name>سید منظور الحسن</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>Mahnama Ishraq February 2001</name> <year>2001</year> <city>Lahore</city> <link>https://www.javedahmedghamidi.org/#!/ishraq/5adb7341b7dd1138372db999?articleId=5adb7452b7dd1138372dd6fb&year=2001&decade=2000</link> <copyright-holder>Al-Mawrid</copyright-holder> </publication> <num-words>1694</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta> ", "num-words": 1694, "title": "بنگلہ دیش کی عدالت کا تاریخی فیصلہ" }
file_id (str): 对应于存储库中文件名的文档文件ID。
metadata(str): 包含文档元数据的XML格式字符串,如文档的标题、作者和出版信息,以及可能有用的其他信息,如文档中乌尔都语单词的数量以及文档是否包含其他语言的文本。
title (str): 文档标题。
num-words (int): 文档中的单词数。
contains-non-urdu-languages (str): 如果文档中包含乌尔都语以外的单词,则为“是”,否则为“否”。
document_body: 文档的XML格式正文。详情如下:
文档被分成元素。通常,使用原始文本中的清晰可见的分隔符(如分页符或水平线)来表示分节。标题不会自动创建新的部分。
每个段落是一个
元素。
标题包含在元素。引用块包含在元素中。引用块本身可能包含其他元素。
列表包含在中。每个列表中的单个项目被包装在
诗歌节奏包含在元素中。每行诗歌位于独立的行上,但不包含在单独的元素中。
表格包含在
所标记的列分割。 非乌尔都语的文本包含在标签中(详见下文)。
,, 和标签与文本内联(即标签之前和之后没有换行符)。其他标签在开标签后和闭标签前有一个换行符。 | 由于使用了XML语法,和&字符已被转义为<、>和&。这包括在元数据中使用这些字符的URL。 数据分片所有数据都在一个拆分中:训练集。 数据集创建策划原理此存储库中的所有文本都经过了精选,以保证语言质量,维护高编辑标准。鉴于大多数以数码形式出版的乌尔都语文本的质量较差,此选择标准使得可以将该文本用于自然语言处理和机器学习应用,而无需解决文本的基本质量问题。 我们通过尽可能广泛地选择尽可能多的作者,以及作者的性别、出版年份和城市的多样性,努力确保这个文本尽可能具有代表性。这一努力是不完美的,我们欢迎任何帮助进一步多样化这段文本的资源。 源数据初始数据收集和归一化[需要更多信息] Source language producers是谁?Makhzan 是由伦纳德·卡尔一家成立的公司开始的,伦纳德·卡尔是语言文学和社会科学方面的专家。 注释注释过程文本使用XML语法进行结构化和注释。使用的元素本体结构松散地基于HTML,当HTML的具体性不需要时进行了简化,并增加以表达在此语料库中常见的在语言分析方面有用的常见情况。文本的语义标记是编辑性质的,也就是说,另一个人对文本进行语义标记时可能会有所不同。然而,努力确保一致性,并在保留文本原始含义的同时,使其易于解析用于语言上不同的文本片段进行分析。 注释使用元素进行内联。在元素中添加了一种语言(lang)属性,以指示其他语言中的文本(如引用文本或以其他语言和脚本呈现的技术词汇)。属性值是两个字符的ISO 639-1代码。因此,例如,阿拉伯语引用的结果注释将是。添加了一种类型(type)属性以指示不是一种语言的文本,但不是乌尔都语文本。例如,URL包装在标签中。 注释者是谁?[需要更多信息] 个人和敏感信息[需要更多信息] 使用数据的注意事项数据的社会影响[需要更多信息] 偏见讨论[需要更多信息] 其他已知限制一些文件没有有效的XML,无法加载。此问题已被跟踪记录为 here 。 其他信息数据集筹备者Zeerak Ahmed 许可信息[需要更多信息] 引文信息@misc{makhzan, title={Maḵẖzan}, howpublished = "\url{https://github.com/zeerakahmed/makhzan/}", } 贡献感谢 @arkhalid 添加了这个数据集。 |